یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی - شٹر اسٹاک فوٹو |
طبی ماہرین اس سوال سے پریشان ہیں کہ آخر نئے نوول کورونا وائرس کچھ افراد کو زیادہ متاثر نہیں کرتا جبکہ متعدد ایسے ہوتے ہیں جن میں اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
اب اس سوال کا جواب ماہرین نے تلاش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کووڈ 19 کے مریضوں کے مدافعتی نظام کو ابتدائی مراحل پر دبا دینا اس کی سنگین علامات کو ابھرنے سے روک سکتا ہے۔
امریکا کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے کیک اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں یہ جواب دیا گیا۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل آف میڈیکل وائرلوجی میں شائع ہوئے جس میں بتایا گیا کہ کچھ مریضوں کا دفاعی نظام ہی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
جسم کی پہلی دفاعی دیوار وہ مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جو کسی انفیکشن کے فوری بعد سامنے آتا ہے جس میں وہ بیرونی حملہ آور پر دھاوا بول کر وائرس اور متاثرہ خلیات کو مارتا ہے۔
جسم کی دوسری دفاعی دیوار وہ مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جو کسی وائرس کے برقرار رہنے پر حرکت میں آتا ہے اور خصوصی خلیات جیسے ٹی سیلز اور بی سیلز کو متحرک کرتا ہے۔
محققین نے ایک ریاضیاتی ماڈل کو استعمال کرکے تجزیہ کیا کہ کس طرح ییہ 2 مدافعتی ردعمل کووڈ 19 کے ممریضوں میں کام کرتا ہے اور اس کا موازنہ فلو کے مریضوں سے کیا۔
فلو بہت تیزی سے حرکت کرنے والا انفیکشن ہے جو نظام تنفس کے مخصوص بالائی خلیات کو ہدف بنا کر 2 سے 3 دن میں ان میں سے بیشتر خلیات کو مار دیتا ہے۔
ان خلیات کے مرنے پر وائرس کو مزید اہداف کی جانب بڑھاتا ہے اور پہلا مدافعتی ردعمل اپنا کام شروع کرکے دوسرے ردعمل سے قبل وائرسز کو لگ بھگ ختم کردیتا ہے۔
مگر کووڈ 19 میں میں وائرس پورے نظام تنفس کے خلیات کو ہدف بناتا ہے اور اوسطاً 6 دن میں علامات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ سست رفتاری سے بیماری پیشرفت کرتی ہے۔
سائنسدانوں نے اپنے ماڈل میں دریافت کیا کہ دوسرا مدافعتی ردعمل قبل از ووقت حرکت میں آجاتا ہے جس سے پہلے مدافعتی ردعمل کی وائرس کو مارنے کی صلاحیت اثرانداز ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وائرس بڑھنے سے دوسرا مدافعتی ردعمل مخلتف مامات پر حرکت میں آتا ہے، جس کے نتیجے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے جو کہ cytokine storm کا باعث بنتا ہے، جس کے دوران مدافعتی نظام صحت مند خلیا کو ہی مار کر ٹشوز کو نقصان پہنچا دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 2 مدافعتی ردعمل سے یہ ممکنہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ آخر کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں یہ بیماری 2 بار کیوں زور پکڑتی ہے، یعنی پہلے حالت بہتر محسوس ہوتی ہے مگر پھر بتدریج بہت زیادہ بگڑ جاتی ہے۔
محققیین کا کہنا تھا کہ کچھ مریضوں میں علامات کی شدت میں کمی کے بعد یہ مرض دوبارہ شدت پکڑ سکتا ہے، ایسا اس لیے ممکن ہوتا ہے کیونکہ دونوں مدافعتی ردعمل ابتدا میں وائرس کی سرگرمیوں کو عارضی طور پر کم کردیتے ہیں، مگر وائرس مکمل طور پر کلیئر نہ ہونے پر وائرس دوبارہ طاقت پکڑلیتا ہے۔
تحقیق کا اہم ترین نتیجہ یہی تھا کہ مدافتی ردعمل کے عمل میں روک تھام کرکے مریض کو جلد صحتیابی میں مدد دی جاسکتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ریاضیاتی ماڈل کے نتائج کی بنیاد پر ہم تجویزی کرتے ہیں کہ مدافعتی ردعمل دبانے والی دوا کا ابتدائی مرحلے میں استعمال مریض کی صحتیابی کے عمل کو بہتر کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدافعتی ردعمل دبانے والے درست طریقہ کار سے دوسرے مدافعتی ردعمل کو التوا میں ڈالا جاسکتا ہے جس سے پہلے ردعمل کو اپنا کام کرنے کا موقع مل سکے گا اور تیزرفتاری سے وائرس اور متاثرہ خلیات کے خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اگلے مرحلے میں کووڈ 19 کے مریضوں میں روزانہ کے وائرل لوڈ اور دیگر بائیومیکرز کی جانچ پڑتال کریں گے تاکہ دیکھ سکیں کہ ریاضیاتی ماڈل کے نتائج کس حد تک درست ہیں۔
No comments:
Post a Comment