دنیا کے مختلف ممالک میں لاک ڈائون کے بعد اربوں افراد گھروں تک محدود ہیں اور ضروری اشیا کی خریداری اور طبی ایمرجنسی کے علاوہ باہر جانے کی اجازت نہیں۔
مگر متعدد افراد حکومتی پابندیوں کی پروا نہیں کرتے جو نہ صرف ان کی اپنی صحت بلکہ دیگر افراد کے لیے خطرہ بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔
انڈونیشیا میں ایک گائوں نے اس کا حل 'بھوتوں' کی خدمات حاصل کرکے نکالا ہے۔
جاوا آئی لینڈ کے گائوں کیپوہ کی گلیوں میں آج کل 'بھوت' گھوم رہے ہیں تاکہ لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے پر مجبور کرسکیں اور کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
گائوں کے نوجوانوں کے گروپ کے سربراہ انجار پنچینگتیاز نے بتایا 'ہم کچھ مختلف اور ایسا تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے جو لوگوں کو خوفزدہ کرسکے'۔
اس گروپ نے پولیس کے ساتھ مل کر سماجی دوری کو فروغ دینے کے لیے یہ منفرد حکمت عملی اپنائی ہے اور اسے توقع ہے کہ صدیوں پرانی توہم پرستی لوگوں کو گھروں تک محدود رکھے گی۔
سفید چادروں میں ملبوس پراسرار بھوتوں جیسے افراد کو مقامی طور پر پوکونگ کہا جاتا ہے جس کے لیے وہ اپنے چہروں پر سفوف مل لیتے ہیں اور آنکھوں کو کوئلے سے سیاہ کرلیتے ہیں۔
انڈونیشیا کی لوک کہانیوں میں اس طرح کے بھوتوں کا ذکر موجود ہے جن کے بارے میں جاتا ہے کہ موت کے بعد ان کی روحیں زمین پر پھنس گئیں۔
مگر رواں ماہ جب یہ 'بھوت' گائوں کی گلیوں میں نمودار ہوئے تو لوگ خوفزدہ ہوکر گھروں میں دبکنے پر مجببور ہوگئے۔
انڈونیشیا میں ملک گیر سطح پر لاک ڈائون کی جگہ حکومت کی جانب سے لوگوں پر سماجی دوری اور اچھی صفائی کی مشق پر زور دیا جارہا ہے۔
مگر اموات کی شرح میں اضافے کی وجہ سے کچھ برادریوں جیسے اس گائوں نے لوگوں کے تحفظ کے لیے خود اقدامات کا فیصلہ کیا، جس کے بھوتوں کے گشت، لاک ڈائونز اور گائوں میں آنے جانے پر پابندیوں کا نفاذ کیا۔
انڈونیشیا میں اب تک 48 سو سے زائد کیسز اور 450 سے زائد ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔
یونیورسٹی آف انڈونیشیا کے محققین نے تخمینہ لگایا ہے کہ اگر لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیوں کا اطلاق نہ ہوا تو مئی میں کیسز کی تعداد 15 لاکھ اور ہلاکتیں ایک لاکھ 40 ہزار تک ہوسکتی ہیں۔
گائوں کے رہائشیوں کا کہنا ہے جب سے بھوت نمودار ہووئے ہیں، والدین اور بچوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا ہے، اور اب ایک جگہ اکٹھے یا عشا کی نماز کے بعد گلیوں میں نہیں رکتے۔
No comments:
Post a Comment